An extract from the Friday Sermon delivered by the Head of the Ahmadiyya Muslim Community, Hazrat Mirza Masroor Ahmad (may Allah be his Helper) on 3 February 2023.
For more information, visit alislam.org and mta.tv
00:00
00:07
02:13 3 Stages of Tauheed
Summary:
His Holiness(aba) quoted the Promised Messiah(as) saying that there are some who allege that the Holy Qur’an has not brought anything new and it presents the unity of God just as the Torah does. However this is not true, because the Holy Qur’an presents the unity of God in such fine detail and with such clarity as is not mentioned anywhere in the Torah. The Holy Qur’an establishes a true understanding of the unity of God, it eliminates all aspects of associating partners with God, and it teaches to place the love of God above all else.
قرآن کریم کی ضرورت اور اہمیت بیان فرماتے ہوئےآپؑ فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتی ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں۔ مگر
*قرآن شریف کا مدنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اس کی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے۔*
سو بلحاظ مخاطبین کے توریت کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں بڑا فرق ہے۔ مثلاً توریت کہتی ہے کہ خون مت کر اور قرآن بھی کہتا ہے کہ خون مت کر اور بظاہر قرآن میں اسی حکم کا اعادہ معلوم ہوتا ہے جو توریت میں آ چکا ہے۔ مگر دراصل اعادہ نہیں بلکہ توریت کا یہ حکم صرف بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا ہے اور صرف بنی اسرائیل کو خون سے منع فرماتا ہے دوسرے سے توریت کو کچھ غرض نہیں۔ لیکن قرآن شریف کا یہ حکم تمام دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور تمام نوع انسان کو ناحق کی خون ریزی سے منع فرماتا ہے۔ اسی طرح تمام احکام میں قرآن شریف کی اصل غرض عامہ خلائق کی اصلاح ہے اور توریت کی غرض صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 85)
پھر فرمایا: ’’یہ دعویٰ پادریوں کا سراسر غلط ہے کہ ’’قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی‘‘۔ بظاہر ایک نادان توریت کو دیکھ کر دھوکہ میں پڑے گا کہ توریت میں توحید بھی موجود ہے اور احکام عبادت اور حقوق عباد کا بھی ذکر ہے۔ پھر کونسی نئی چیز ہے جو قرآن کے ذریعہ سے بیان کی گئی۔ مگر یہ دھوکہ اسی کو لگے گا جس نے کلام الٰہی میں کبھی تدبر نہیں کیا۔ واضح ہو کہ الٰہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توریت میں اس کا نام و نشان نہیں ۔ چنانچہ توریت میں توحید کے باریک مراتب کا کہیں ذکر نہیں ۔ قرآن ہم پر ظاہر فرماتا ہے کہ توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ ہم بتوں اور انسانوں اور حیوانوں اور عناصر اور اجرام فلکی اور شیاطین کی پرستش سے باز رہیں بلکہ توحید تین درجہ پر منقسم ہے درجہ اوّل عوام کے لئے یعنی ان کے لئے جو خدا تعالیٰ کے غضب سے نجات پانا چاہتے ہیں ۔ دوسرا درجہ خواص کے لئے یعنی ان کے لئے جو عوام کی نسبت زیادہ تر قرب الٰہی کے ساتھ خصوصیت پیدا کرنی چاہتے ہیں ۔ اور تیسرا درجہ خواص الخواص کے لئے جو قرب کے کمال تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ اوّل مرتبہ توحید کا تو یہی ہے کہ غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے اور ہر ایک چیز جو محدود اور مخلوق معلوم ہوتی ہے خواہ زمین پر ہے خواہ آسمان پر اس کی پرستش سے کنارہ کیا جائے۔ دوسرا مرتبہ توحید کا یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے تمام کاروبار میں مؤثرِ حقیقی خداتعالیٰ کو سمجھا جائے اور اسباب پر اتنا زور نہ دیا جائے جس سے وہ خداتعالیٰ کے شریک ٹھہر جائیں ۔ مثلاً یہ کہنا کہ زید نہ ہوتا تو میرا یہ نقصان ہوتا اور بکر نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا۔‘‘ لوگوں پریہ انحصار بھی شرک ہے۔ یہ توحید کے خلاف ہے۔ ’’اگر یہ کلمات اس نیت سے کہے جائیں کہ جس سے حقیقی طور پر زید و بکر کو کچھ چیز سمجھا جائے تو یہ بھی شرک ہے۔ تیسری قسم توحید کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھانا اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرنا۔ یہ توحید توریت میں کہاں ہے۔ ایسا ہی توریت میں بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا اور شاید کہیں کہیں اشارات ہوں ۔ ایسا ہی توریت میں خداتعالیٰ کی صفات کاملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں ۔ اگر توریت میں کوئی ایسی سورۃ ہوتی جیساکہ قرآن شریف میں قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۔ اَللّٰهُ الصَّمَدُ۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۔ (الاخلاص:2تا5) ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رک جاتے۔ ایسا ہی توریت نے حقوق کے مدارج کو پورے طور پر بیان نہیں کیا۔ لیکن قرآن نے اس تعلیم کو بھی کمال تک پہنچایا ہے۔ مثلاً وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى (النحل:91) یعنی خدا حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم لوگوں کی ایسے طور سے خدمت کرو کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے خدمت کرتا ہے۔ یعنی بنی نوع سے تمہاری ہمدردی جوش طبعی سے ہو کوئی ارادہ احسان رکھنے کا نہ ہو جیساکہ ماں اپنے بچہ سے ہمدردی رکھتی ہے۔ ایسا ہی توریت میں خدا کی ہستی اور اس کی واحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے نہیں دکھلایا۔
Continued in comments
#WordsOfKhalifa #Ahmadiyya
Негізгі бет 3 Stages of Tauheed | Ahmadiyya | Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V (aba)
Пікірлер: 2