المدد صابر پیا سنیوں کے پیشوا صابر تری بستی میں رحمت کی جھری دیکھی چوکھٹ پے تیری ہم نے اک دنیا بسی دیکھی مرجھائے ہوے دل کی کھلتی ہے کلی دیکھی طوفاں میں پھسی کشتی کو پار لگی دیکھی سرکار دوعالم کا فیضان ہے کلیر میں بخشش کا حسی تر اک گلدان ہے کلیر میں سنی کے دلوں کا ہاں سلطان ہے کلیر میں سرکار فریدالدین کی جان ہے کلیر میں سرکار کی الفت کا تم جام پیے جاؤ اللّٰہ کے ولیوں سے بس پیار کیے جاؤ ملنا ہے اگر تم کو کلیر کے شہنشاہ سے اشرف سےاجازت لو کلیر کو چلے جاؤ ظلمت میں ہدایت کی تنویر ہو تم صابر دنیائے شکیبائ کے میر ہو تم صابر اقطاب زمانا کے بھی پیر ہو تم صابر کہ اپنے ہی مرشد کی تصویر ہو تم صابر ویران دلوں کو وہ گلزار بناتے ہیں وہ بارہ برس بھوکے رہ کر کے دکھاتے ہیں کہتے ہیں فنا کس کو اور راز بقا کیا ہے دنیا کو میرے صابر یہ راز بتاتے ہیں گردش سے پریشاں دل حالات کا مارا ہے غم اس کو ستائے یہ کب تجھ کو گوارا ہے طغیانی میں کشتی ہےاور دور کنارہ ہے ائے ڈوبتوں کے والی اب تیرا سہارا ہے دیدار کا ہے دل میں ارمان علأالدین تم درد جگر کے ہو درمان علأالدین اک نظر کرم کر دو سلطان علأالدین ایوب کی جاں تم پر قربان علأالدین
Пікірлер: 17