ماہ اگست اوراسقدر مسائل میں گھرا بیچارہ پاکستان۔ کہیں سیلاب اور کہیں نسلی فسادات' کہیں لسانی' کہیں خودکش حملے توکہیں ڈرون حملے۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہو جاتی ' عالمی برادری میں ہماری تمام کاوشوں جو علمی برادری ہی کے لئی کی گئیں تا کہ ان کی خوشنعدی حاصل ہو سکے لیکن کے صلے میں ہم ہی پر الزام تراشی۔ کیا یہ وطن اس لئے حاصل کیا گیا تھا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو انسان تو انسان خدا بھی ہمارے ساتھ نہیں۔ کیا یہ سب عذاب کی اشکال نہیں (میں مذہبی حوالے سے بات نہیں کر رہا)
نا اہل حکمرانوں کی شکل میں ایک عذاب تو ہم نے خود ہی اپنے آپ پر مسلط کر رکھا ہے ۔ جو ملک میں تیز ہوا بھی چلے تو بیرون ملک پہنچے ہوتے ہیں
عزت اور غیرت جو کسی قوم کا سرمایہ کل ہوتی ہیں ہم نے گزشتے دو دہائیوں میں کچھ ایسے نیلام کی کہ دوسری بڑی اقوام ہماری عزت نفس کو کچلے بغیر جو کام ہو سکتے ہیں ان کو بھی ہماری عزت کی لاش پر کرنا پسند کرتے ہیں- ویسے ان کا کیا قصور ؟ ہم تو خود ان کے چرنوں میں بیٹھنے کے لیے بیتاب ہیں چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ لیکن شاید ہم بھول جاتے ہیں
حرمت و آبرو کا گر سودا کر لیا ہم نے
یاد اپنی یاد رفتگاں میں مل جائے گی
دانہ گندم تو خیرات میں مل جائے گا
عزت وغیرت بھی کیا خیرات میں مل جائے گی
ان حالات میں صرف ہم ہی ہیں جن کو پر امید رہتے ہوئے وطن عزیز کی تعمیر کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔۔کیونکہ
گھر تو آخر اپنا ہے !!!!
--------------------------
ملی نغمہ
مغنیہ : شہناز بیگم
موج بڑھے یا آندھی آئے ، دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں ، گھر تو آخر اپنا ہے
بال بکھیرے اُتری برکھا ، رُوپ لٹاتا چاند
کیا پل بھر کو اٹھی آندھی ، تارے پڑ گئے ماند
رات کٹھن یا دن ہو بوجھل
رات کٹھن یا دن ہو بوجھل ، ہنستے گاتے چلنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے
لہروں لہروں اترا سورج ، بستی بستی رُوپ
جاگ اٹھے تیرے موتی مونگے ، ناچ رہی کیا دھوپ
ناؤ بڑھا ، پتوار اٹھا
ناؤ بڑھا ، پتوار اٹھا
ناؤ بڑھا ، پتوار اٹھا کے سات سمندر مچنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے
Негізгі бет Ghar to Aakhir apna hai -- گھر تو آخر اپنا ہے.
Пікірлер: 80