ان اللہ عزوجل حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء صلوت اللہ علیھم والی روایت کی حقیقت:۔ حصہ 1 "امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں کہ ہم سے روایت بیان کی حسین بن علی الجعفی نے اور انہوں نے عبدالرحمن بن یزید بن جابر سے اور انہوں نے ابو الا الصنعانی سے اور انہوں نے اوس بن اوس سے رضہ سے ؛ انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا دن ہے کیونکہ اسی دن آدم علیہ اسلام پیدا ہوئے اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی روز "النفختہ" اور " الصعقتہ" ہو گا۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھو حقیقت بات ہے کہ تمہارا درود پاک مجھ پر پیش کیا جاتا پے۔ صحابہ رضہ نے عرض کیا کہ ہمارا درود اس وقت کیسے پیش کیا جائے گا جب آپ کا جسم ریزا ریزا ہو جائے گا یعنی وفات کے بات بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔ فرمایا کہ اللہ نے زمین پر حرم کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے"۔ (مسند احمد ج 4 ص 8/ ابودائود ج 1 ص 150/ نسائی ج 1 ص 154) اس روایت کو پیش کرنے کے بعد علماء کہتے ہیں یہ بلکل صحیح روایت ہے کیونکہ حسین بن علی الجعفی، عبدالرحمن بن یزید بن جابر اور ابو الاثعت الصنعانی ثقہ راوی ہیں؛ اوس بن اوس کا پوچھنا ہی کیا وہ تو صحابی ہیں ثابت ہو گیا کہ پیارے نبی کی روح مبارک آپ کے جسد مبارک میں واپس آگئی ہے اور آپ کو پھر سے حیات مل گئی ہے ورنہ درود پیش کئے جانے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ اس روایت کی سند بتانے سے پہلے اس روایت کو قرآن کی کسوٹی پر رکھ کر چیک کرتے ہیں کہ یہ روایت قرآن کے مطابق ہے یا نہیں۔ ہم سب کا ایمان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات قرآن کے مطابق ہوتی ہے۔ بی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے۔ اصول فقہ کی مشہور کتاب اصول شاشی میں لکھا ہے۔اور یہ کتاب حنفیوں کے مدرسے میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔ "اور بوجہ اختلاف حال راویوں کےعلماء حنفیہ نے خبر آحاد پر عمل کرنے کی یہ شرط کی ہے کہ وہ خبر واحد کتاب اور سنتہ مشہور کے مخالف نہ ہو اور ظاہر کے مخالف ھی نہ ہو کیونکہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد بہت حدیثیں میری طرف سے تمہاری طرف پہنچیں گی۔ جب کوئی حدیث میری طرف سے تمہارے پاس روایت کی جائے اس کو کتاب اللہ کے سامنے پیش کرو۔ موافق ہو تو قبول کر لو اور اگر وہ حدیث کتاب اللہ کے مخالف ہو تو اس کو رد کر دو" صفحہ 108، 109 قرآن پاک میں پیارے نبی اور شہداء کی حیات کے بارے میں آیا کہ " اپنے رب کے پاس زندہ ہیں"(آل عمران 169) صحیح مسلم کتاب الامارہ میں اس آیت سے مراد شہداء و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عرش الہی کے نیچے جنتی حیات ہے۔( قبر میں حیات نہیں) غور فرمائیں:۔ قرآن کہ رہا ہے پیارے نبی اور شہداء اللہ کے پاس( یعنی جنت میں زندہ ہیں) اور جو روایت ہم تک پہنچی اس روایت نے پیارے نبی کو قبر میں حیات دے دی۔( یعنی وفات کے بعد پیارے نبی کی روح مبارک عرش الہی کے نیچے جنت الفردوس میں جانے کی بجائے واپس قبر میں موجود جسم کے ساتھ مل گئی اور اس طرح پیارے نبی کو دوبارہ قبر میں حیات مل گئی) ایک روایت ہی قرآن پاک کے خلاف ہے اس پر کیوں ایمان لایا جائے؟؟؟؟ کیوں اس روایت پر عقیدہ بنایا جائے؟؟؟ جب روایت ہی قرآن پاک کے خلاف پائی گئی تو اسے سو فیصد رد کر دیا جائے گا۔ اب آتے ہیں اس روایت کی سند پر:۔ قرآن کی آیت کے مقابلے میں ایک ایسی روایت کو پیش کرنا جو ضعیف ہی نہیں بلکہ منکر روایت ہے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ منکر روایت (یعنی اس روایت میں موجود ایک راوی فاسق ، بدعتی، بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا اور بہت زیادہ غفلت برتنے والا ہے) محدیثین نے اس روایت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس روایت کو جو ایک "عظیم گرو علماء" نے صحیح سمجھ لیا۔ وہ در اصل اس کے ظاہر سے دھوکہ کھا گئے۔ وہ یہ سمجھے کہ حسین بن علی الجعفی نے جو عبدالرحمن بن یزید بن جابر کا نام لیا ہے وہ درست ہے اور چونکہ یہ راوی ثقہ ہے اس لئے حدیث بھی صحیح ہے۔ بھلا ہو امام بخاری کا کہ انہوں نے سب سے پہلے خبردار کیا کہ قرآن کے خلاف بیان کی جانے والی اس روایت میں ثقہ راوی عبدالرحمن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبدالرحمن بن یزید بن تیمیم ہے جو منکر الحدیث ہے۔ حسین بن علی الجعفی سے بھول ہو گئی ہے اور وہ عبدالرحمن کے دادا کا نام " تیمیم" کے بجائے " جابر" بیان کر گئے۔ امام بخاری اپنی کتاب "التاریخ"میں لکھتے ہیں: "عبدالرحمن بن یزید بن تیمیم السلمی الشامی نے مکحول سے روایت کی ہے اور اس سے سنا الولید بن مسلم نے کہ اس کی روایتیں منکر روایتیں پائی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس سے اہل کوفہ ابوا سامہ اور حسین ابن علی الجعفی نے روایتیں بیان کی ہیں اور اس کا نام عبدالرحمن بن یزید بن تیمیم لینے کی بجائے عبدالرحمن بن یزید بن جابر کہ گئے ہیں"۔( التاریخ الکبیر ج 3 ص 365) ایک دوسری جگہ امام بخاری اپنی رجال کی کتاب " التاریخ الصغیر" میں لکھتے ہیں: " الولید نے کہا کہ عبدالرحمن بن یزید بن جابر کی ایک کتاب تھی جس کو انہوں نے سن رکھا تھا اور ایک دوسری کتاب تھی جس کی روایتوں کو انہوں نے خود سنا تھا۔ لیکن اہل کوفہ ابواسامہ اور حسین بن علی جعفی نے اپنی روایتوی میں عبدالرحمن بن یزید بن جابر کہا ہے حالانکہ جس سے انہوں نے سن کر روایتیں کی ہیں وہ عبدالرحمن ابن یزید بن تیمیم تھا، ابن جابر نہیں تھا اور ابن تیمیم والا عبدالرحمن منکر حدیث ہے"۔( التاریخ الصغیر صفحہ 175)
@MuhammadAbdullah-df4np
5 жыл бұрын
ان اللہ عزوجل حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء صلوت اللہ علیھم والی روایت کی حقیقت:۔ حصہ 2 اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حسین بن علی الجعفی کے ساتھی ابواسامہ( حماد بن اسامہ) نے دیدہ و دانستہ تغافل برتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ جس سے وہ روایت کر رہا ہے وہ عبدالرحمن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبدالرحمن بن یزید بن تمیم ہے۔ (تہذیب التہذیب جلد 6 صفحات 295، 296، عبدالرحمن بن یزیز بن تمیم)۔ امام بخاری کا منکر الحدیث کی روایت کے متعلق فیصلہ یہ ہے کہ منکر الحدیث کی روایت بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے: "الذہبی کہتے ہیں کہ بخاری کا قول ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہوں کہ وہ منکرالحدیث ہے، اس کی روایت بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے"۔ ( سلسلتہ الا حادیث الضعیفتہ والموضوعتہ لناصرالدین الا لبانی: صفحہ 217) بہر حال امام بخاری نے ثابت کر دیا کہ "اللہ نے زمین پر حرام کر دیا کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے" والی روایت منکر ہے اور ایسی روایت کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ یہی بات امام رازی اپنی کتاب "علل الحدیث" میں لکھتے ہیں: "عبدالرحمن رازی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ عبدالرحمن بن یزید بن جابر سے کسی عراقی نے حدیث روایت کی ہے اور میرے نزدیک صحیع بات یہ ہے کہ ابو اسامہ اور حسین الجعفی نے جس سے روایت کی ہے وہ ایک ہی شخص عبد الرحمن بن یزید بن تیمیم ہے کیونکہ ابواسامہ نے عبدالرحمن بن یزید عن القسم عن ابی امامتہ کی سند سے پانچ یا چھ منکر روایتیں بیان کی ہیں جو عبدالرحمن بن یزید بن جابر جیسا ثقہ راوی بیان ہی نہیں کر سکتا اور مجھے معلوم نہیں کہ عبدالرحمن بن یزید بن جابر سے کسی شامی راوی نے ان منکر روایات میں سے کچھ بھی بیان کیا ہے۔ اور یہ جو حسین بن علی الجعفی نے عبدالرحمن بن بن یزید بن جابر سے اور انہوں نے ابوالاشعت الصنعانی سے اور انہوں نے اوس بن اوس رضہ سے اورانہوں نے نبی ص سے ہی روایت بیان کی ہے کہ نبی ص ے ارشاد فرمایا کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے یہ روایت منکر ہے۔ رہا عبدالرحمن بن یزید بن تمیم تو وہ ضعیف الحدیث ہے اور عبدالرحمن بن یزید بن جابر ثقہ ہے"۔ ( علل الحدیث جلد 1 صفحہ 197) بخاری کی مختصر بات کو امام رازی نے کھول کر بیان کر دیا اور ساتھ ساتھ کتاب "الجرح و التعدیل" میں یہی بات یوں لائے: "پس وہ راوی جس سے ابواسامہ نے روایت کی تھی ابن جابر( عبدالرحمن بن یزید بن جابر) نہیں وہ عبدالرحمن بن یزید بن تمیم ہے۔ عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے عبدالرحمن بن یزید بن تمیم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی بہت سی منکر روایات ہیں؛ کہا جاتا یے کہ وہی وہ راوی ہے جس نے ابواسامہ اور حسین الجعفی نے روایتیں بیان کی ہیں اور دونوں یہ کہ گئے کہ وہ ابن یزید بن جابر ہے؛ ان دونوں نے اس ( عبدالرحمن) کے نسب میں غلطی کی؛ ( یزید ابن جابر کے بجائے) یزید بن تمیم زیادہ صحیح ہے اور وہ ( ابن تمیم) ضعیف الحدیث) ہے۔ عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے ابوزرعتہ سے عبدالرحمن یزید بن تمیم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسے ضعیف الحدیث کہا"( کتاب الجرح و التعدیل جلد 5 صفح 300- 301)
@MuhammadAbdullah-df4np
5 жыл бұрын
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات:۔ بریلوی مولوی کو منہ توڑ جواب:۔ قرآن و صحیح احادیث سے صحیح عقیدہ:۔ جو عقیدہ یہاں بیان کیا جارہا ہے۔ اس کے مطابق جس نے اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا اور اسی عقیدے پر اس کا خاتمہ بھی ہوا ، وہ بروز قیامت پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں جائے گا۔ ان شاءاللہ۔ عقیدہ ملا خطہ فرمائیں:۔👇👇👇 وفات کے بعد، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک عالم برزخ (جنت الفردوس) میں پرواز کر گئی۔ عالم برزخ میں، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نیاء برزخی جسم عطا کیا گیا۔ اس برزخی جسم کے اندر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کو داخل کر دیا گیا۔ اس طرح، امام النبیاء، امام اعظم، قائد اعلئ، قائد اعظم، پیران پیر مرشد اعظم "محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" عالم برزخ میں روح اور برزخی جسم کے ساتھ اپنے رب کے پاس یعنی جنت الفردوس کے اعلی و ارفع مقام " الوسیلہ" میں زندہ ہیں۔ القرآن:۔ "اپنے رب کے پاس زندہ ہیں"( آل عمران 169) اور میرے مرشد محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرش الہی کے نیچے جنت الفردوس میں روح و برزخی جسم کے ساتھ صبح قیامت تک برزخی حیات گذاریں گے۔ صحیح بخاری کی پہلا حدیث:۔👇👇👇 صحیح بخاری میں سمرہ بن جندب رضہ سے بیان کردہ ایک طویل روایت کا مطالعہ:۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں جبرائیل و میکائیل علیہ السلام نے آسمان میں جا کر جنت کے مختلف مقامات کی سیر کروائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ دو فرشتے مجھے ایک ہرے بھرے باغیچہ میں لےگئے۔ وہاں ایک درخت تھا اس کی جڑ میں ایک بوڑھا بیٹھا تھا اور کئی بچے اس درخت کے پاس تھے۔ پھر وہ فرشتے مجھ کو لے کر اس درخت پر چڑھے اور ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ میں نے اس سے اچھا اور سے عمدہ کوئی گھر ہی نہیں دیکھا۔ اس میں بوڑھے اور جوان اور عورتیں اور بچے سب تھے۔ پھر وہاں سے نکال کر درخت پر چڑھا لےگئے اور ایک دوسرے گھر میں لے گئے جو پہلے گھر سے بھی زیادہ خوبصورت اور عمدہ گھر تھا۔ سیر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے ان دو فرشتوں سے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا وہ سب کیا تھا؟ ان دو فرشتوں نے مجھے بتایا کہ درخت کی جڑ میں جو بوڑھا آپ نے دیکھا وہ ابراھیم پیغمبر ہیں۔ پہلے جس گھر میں آپ داخل ہوئے تھے وہ عام مومنین کے رہنے کا گھر ہے۔ اور جو دوسرا گھر جس میں اپ داخل ہوئے تھے وہ گھر شہداء کے ہیں۔ اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھی میکائیل ہیں۔ آخر میں ان دونوں نے مجھ سے کہا ذرا اپنا سر اٹھائو میں نے سر اٹھایا دیکھا ابر کی طرح ایک چیز میرے اوپر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کا مقام ہے۔ میں نے ان نے کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں اپنے مقام میں داخل ہوجائوں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی دنیا میں رہنے کی تمہاری کچھ عمر باقی ہے۔ جس کو تم نے پورا نہیں کیا۔ جب پورا کر لوں گے پھر اپنے اس مقام میں آجائو گے۔ مطالعہ کریں:۔ "صحیح بخاری جلد نمبر 1 کتاب الجنائز باب 877 عن سمرہ بن جندب قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ نمبر 444" صحیح بخاری کی دوسری حدیث:۔👇👇👇 صحیح بخاری جلد نمبر 3 کتاب الدعوات باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں دعا کرنا یا اللہ میں بلند رفیقوں( ملائکہ اور انبیاء) کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں" حدیث نمبر 761 صفحہ 381 " عائشہ رضہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت صحت یوں فرماتے تھے کوئی پیغمبر اس وقت تک نہیں مرتا جب تک جنت میں اپنا ٹھکانہ نہیں دیکھ لیتا اور اس کو اختیار دیا جاتا ہے( یا تو دنیا میں رہو یا پھر اللہ کی ملاقات کو ترجیع دو) پھر جب آپ بیمار ہوئے اور موت آن پہنچی اس وقت آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ ایک گھڑی تک بے ہوش رہے اس کے بعد ہوشیار ہوئے تو اپنی نگاہ چھت کی طرف لگائی اور فرمایا اللہ میں بلند رفیقوں میں رہنا چاہتا ہوں تب میں نے اپنے دل میں کہا آپ دنیا میں ہمارے پاس رہنا پسند نہیں فرمائیں گے اور مجھ کو معلوم ہوا کہ جو بات آپ نے حالت صحت میں فرمائی تھی وہ صحیح تھی۔ عائشہ رضہ کہتی ہیں اللہم رفیق الاعلی آخری کلمہ تھا جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا"۔ صحیح بخاری کی تیسری حدیث:۔👇👇👇 صحیح بخاری جلد 2 کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 1574 صفحہ 542 " انس رضہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہو گئی تو آپ پر غشی طاری ہونے لگی فاطمہ رضہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی) نے یہ حال دیکھ کر فرمایا ہائے میرے باپ پر کیسی سختی ہو رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے بس آج ہی کا دن ہے۔ اس کے بعد تیرے باپ پر کوئی سختی نہیں ہو گی۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو فاطمہ رضہ یوں کہ کر رونے لگیں ہائے باوا آپ نے اپنے رب کا بلاوا منظور کیا۔ ہائے باوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت الفردوس میں ٹھکانہ بنایا۔ ہائے باوا میں جبرائیل کو آپ کی موت کی خبر سناتی ہوں۔ جب آپ دفنائے جاچکے تو فاطمہ رضہ نے انس رضہ سے کہا تم لوگوں نے یہ کیسے گوارا کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو"۔
@MuhammadAbdullah-df4np
5 жыл бұрын
موسی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا:۔ بریلوی مولوی کو جواب:۔ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں معراج کی رات موسی علیہ السلام کی اس قبر پر سے گزرا جو سرخ رنگ کے ٹیلے کے قریب ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے"۔ ( مسلم کتاب الفضائل ج 2 ص 268) صحیح مسلم کے اندر یہ بھی ہے کہ" نبی صلی اللہ علیہ وسلم موسی علیہ السلام کی قبر سے گزر کر جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں ابراہیم، موسی و عیسی علیہ السلام کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا اور بعد میں ان کی امامت کر کے نماز پڑھائی۔" ( صحیح مسلم کتاب الا یمان ج 1 صفحات 92۔93) بیت المقدس میں نبی صلی اللہ عالیہ وسلم نے ابراہیم موسی و عیسی علیہ السلام کو نماز پڑھتے دیکھا اور پھر ان کی امامت کروائی۔ پھر جب یہاں سے فارغ ہونے کے بعد آسمانوں پر گئے اور ان انبیاء علیہ اسلام سے ملاقات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کیوں نہیں پہچان پائے؟ اور ہر مرتبہ جبرائیل علیہ اسلام سے یہ کیوں پوچھنا پڑا کہ (یہ کون صاحب ہیں جبرائیل؟) اور جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ( یہ آدم علیہ السلام ہیں) ( یہ عیسی علیہ السلام ہیں) (یہ موسی علیہ السلام ہیں) ( یہ ابراھیم علیہ السلام ہیں) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح بخاری کتاب النبیاء جلد 1 صفحات 470۔471 حدیث معراج عن ابی ذر رضہ) دراصل معراج کی پوری رات معجزے کی رات ہے۔ اس دنیا میں جن انبیاء علیہ السلام کو دکھایا گیا تھا۔ ان کو دنیاوی زندگی کے کسی دوسری شکل و صورت میں معجزے کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ یہ ہستیاں نہ ہی آسمانوں سے اتر کر آئیں تھیں اور نہ ہی اپنی اصل شکلوں میں تھیں۔ ورنہ بیت المقدس میں دیکھ کر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر گئے تھے تو فورا پہچان لیتے اور جبرائیل علیہ السلام سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ معراج کی رات کا معجزا ہونا اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ مشکوتہ شریف میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آج موسی زندہ ہوتے تو ان کو بھئ میری پیروی کرنی پڑتی۔ اب بتائیں کس کی بات مانیں آپ کی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی؟؟؟؟؟؟؟؟؟
@MuhammadAbdullah-df4np
5 жыл бұрын
بریلوی مولوی کو جواب:۔ "اور ہم نے ان رسولوں کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے" النبیاء 8 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان:۔ صحیح بخاری کا مطالعہ:۔ بخاری کی روایت کے مطابق وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صحابہ رضہ میں مختلف آراء پائی جاتی تھیں۔ عمر رضہ نے تلوار نکال کر کہا کہ جو یہ کہے گا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے، میں اس کی گردن ماردوں گا۔ اس موقع پر ابو بکر رضہ پہنچ گئے، آپ نے پیشانی رسول کو بوسہ دیا اور کہا: "اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ آپ کو کبھی بھی دو موتوں کا مزہ نہ چکھائے گا"۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: "اللہ کی قسم! اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا، جو موت آپ کے لئے لکھ دی گئی بےشک وہ ہو چکی"۔ (یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ آپ قبر میں جاکر دوبارہ زندہ ہو جائیں اور پھر قیامت میں تیسری دفعہ زندگی ملے) پھر آپ باہر نکلے اور خطبہ ارشاد فرمایا: "سن لو تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بندگی کرتا تھا وہ جان لے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو موت آگئی اور جو اللہ کی بندگی کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے، اسے موت نہیں"۔ پھر آپ نے سورہ الزمل کی آیت 30 تلاوت کی: "اے نبی آپ کو بھی موت آئے گی اور ان سب کو بھی موت آئے گی"۔ پھر سورہ آل عمران کی آیت 144 تلاوت کی: "محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں، تو کیا اگر یہ مر جائیں یا شہید کر دئے جائیں تو تم الٹے پیروں پھر جائو گے؟"۔ اس پر عمر رضہ گھٹنوں کے بل گر گئے اور سارے صحابہ رضہ رونے لگے۔ اس طرح اس پر تمام صحابہ کرام رضہ کا اجماع ہو گیا کہ واقعی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو کر اپنے رب سے جاملے ہیں۔ حوالاجات:۔ صحیح بخاری جلد 2 کتاب المناقب باب 387 بلا عنوان صفحہ 427۔ صحیح بخاری جلد 1 کتاب الجنائز باب 787 الدخول علی المیت بعد الموت صفحہ 546 / صحیح بخاری جلد 2 کتاب المغازی باب 553 مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ صفحہ 768۔
@MuhammadAbdullah-df4np
5 жыл бұрын
شہید کی حیات:۔ بریلوی مولوی کو منہ توڑ جواب "قرآن و حدیث کا اٹل فیصلہ" شہداء اپنی دنیاوی قبروں میں زندہ نہیں ہیں۔ بلکہ، عالم برزخ میں روح اور نئے برزخی جسموں کے ساتھ اپنے رب کے پاس یعنی جنت الفردوس میں زندہ ہیں اور رزق پار رہے ہیں "اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں" (آل عمران 169) "جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں" ( البقرہ 154) قرآن کی اس آیت میں اللہ پاک نے واضح طور پر فرما دیا کہ شہداء کو اپنی دنیاوی حیات پر قیاس نہ کیا جائے ان کو ایک خاص زندگی دی گئی ہے جس کا تمہیں شعور نہیں ہے۔ اگر یہ شہداء کی قبر میں حیات ہوتی تو ہمیں شعور لازمی ہوتا اور اللہ پاک کو نفی کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ثابت ہو گیا کہ یہ شہداء کی برزخی حیات ہے دنیاوی حیات نہیں۔ پھر سورہ آل عمران 169 میں آیا کہ، "جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں مردہ گمان بھی مت کرو ، وہ حقیقت میں زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں" اس آیت کی وضاحت درج ذیل احادیث سے ملتی ہے۔ نیچے ملا خطہ فرمائیں👇👇👇 "مشکوتہ شریف جلد نمبر 2 کتاب الجہاد باب شہداء احد کے بارے میں بشارے حدیث نمبر 3676" "عبداللہ بن عباس رضہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضہ سے کہا کہ جب تمہارے بھائی احد کے دن شہادت سے ہمکنار ہوئے تو اللہ تعالی نے ان کی روحوں کو اڑنے والے سبز قالبوں میں ڈال دیا اور انہوں نے جنت کی نہروں پر آنا جانا شروع کر دیا۔ وہ جنت کے پھر کھانے لگے اور عرش کے نیچے لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں میں آرام کرنے لگے۔ جب اس طرح انہوں نے کھانے پینے اور آرام کرنے کی آسائشیں مہیا پائیں تو آپس میں کہا کہ کون دنیا میں ہمارے بھائیوں تک ہمارے بارے میں یہ بات پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ جنت سے بےرغبتی نہ برتیں اور جہاد کے وقت کم ہمتی نہ دکھائیں؟ پس اللہ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے بارے میں یہ بات پہنچادوں گا۔ پھر مالک نے سورہ آل عمران کی یہ آیتیں نازل کیں کہ: "جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں ان کو مردہ مت کہو وہ حقیقت میں زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں"۔ شہید کی زندگی کے بارے میں امام النبیاء کی زبانی سنئے:۔ "صحیح مسلم جلد 3 کتاب الامارتہ باب بیان ان ارواح الشہداء فی الجنتہ حدیث نمبر 365" " مسروق رضہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عبداللہ رضہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا: "جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں"۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہدا کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں۔ ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں۔ شہدا کی روحیں جنت میں جہاں چاہیں گھمتی پھرتی ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں۔ ان کا رب ان کی طرف متوجہ ہو کر فرماتا ہے۔ تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ییں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں۔ یہاں تک کہ ہم تیرے راستے میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں۔ جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے"۔ امام النبیاء کا عقیدہ شہید جنت الفردوس میں زندہ ہے:۔ 👇👇👇👇👇👇 "حمید کہتے ہیں کہ میں نے انس رضہ کو کہتے ہوئے سنا کہ حارثہ ابن سراقہ رضہ جنگ بدر کے دن شہید ہوگئے اور وہ ابھی نوجوان ہی تھے۔ ان کی ماں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حارث میرے لئے کیا تھا! اگر وہ جنت میں ہے تو صبر کروں گی اور ثواب جان کر اور اگر کسی دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیا تم سمجھتی ہو کہ جنت ایک ہی ہے؟ جنتوں کی تعداد کی تو کثرت یے اور تیرا بیٹا تو جنت الفردوس میں یے"۔ "صحیح بخاری جلد نمبر 2 کتاب المغازی صفحہ نمبر 567" غور فرمائیں:۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیت، " اپنے رب کے پاس زندہ ہیں" کے مطابق فرمایا کہ حارثہ ابن سراقہ جنت الفردوس میں زندہ ہے۔ اگر بلفرض قرآن کی آیت یوں ہوتی👇👇👇 "اپنی قبر میں زندہ ہیں"۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی یوں نہ کہتے کہ تہمارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے بلکہ یوں کہتے تمہارا بیٹا حارث تو اپنی قبر میں زندہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے جنت الفردوس کہا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات قرآن پاک کے مطابق ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف کوئی بات بول ہی نہیں سکتے۔ "
@MuhammadAbdullah-df4np
5 жыл бұрын
بریلوی مولوی کو جواب:۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء علیہ السلام کو قبر میں زندہ ثابت کرنے کے لئے جو روایات پیش کی جاتی ہیں، ان تمام روایات پر محدیثین نے جرح کیا ہے۔ وہ روایات پیش کرنے سے پہلے اصول حدیث کا فیصلہ ملا خطہ فرمائیں:۔ "ایسا راوی جو حدیث میں اپنے فاسد عقیدے کی تائید میں کوئی روایت لے کر آئے اسے رد کر دیا جائے گا۔ ( تہذیب التہذیب/ تقریب التہذیب) پہلی رویت:۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ اللہ کا نبی زندہ ہے اور رزق دیا جاتا ہے۔ پوری سندیوں یوں ہے : اس روایت میں ارسال و انقطاع ہے کیونکہ زید بن ایمن کا عبادہ بن نسی سے اور عبادہ بن نسی کا ابو الدر آء رضہ سے سماع نہیں ہے۔ نیز راوی سعید بن ابی ہلال کو ابن حزم نے ضعیف کہا ہے۔ ابو بکر ابن ال عربی المالکی کہتے ہیں کہ یہ روایت ثابت نہیں ہے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے۔ ( تہذیب التہذیب جلد 3 صفحہ 397/ التاریخ للبخاری جلد 2 صفحہ 354) دوسری روایت:۔ بیہقی کہ روایت ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور صلوتہ ادا کرتے ہیں۔ پوری سندیوں یوں ہے : اس کا راوی حسن بن قتیبہ خزاعی ہے جس کو امام ذہبی (ہلاک کرنے والا ہے) کہتے ہیں: دارقطنی اسے (بے بنیاد روایتیں بیان کرنے والا کہتے ہیں۔( میزان الا عتدال جلد 1 صفحہ 241/ لسان المیزان جلد 2 صفحہ 246) ۔ تیسری روایت:۔ نسائ میں ہے کہ نبی ص نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے زمین پر گھومتے اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔ اس کی سند یہ ہے : اس روایت میں زاذان راوی ہے۔ ابن حجر تہذیب التہذیب میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں یہ حدیث کے معاملے میں بہت زیادہ خطا کرتا تھا۔ زاذان کے متعلق ابن عسقلانی تقریب التہزیب میں لکہتے ہیں کہ اس میں شیعت ہے۔ ( تہذیب التہذیب جلد 3 صفحات 302،303/ التقریب التہذیب صفحہ 161) چھوتی روایت:۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی ص نے فرمایا کہ جب کوئ شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ میری روح واپس لوٹا دیتا ہے اور میں سلام کا جواب دیتا ہوں۔ اس کی سندیوں ہے: اس روایت میں ابو صخر حمید بن زیاد ہے جس سے حاتم بن اسماعیل روایت کرتا ہے۔ اس کو سیوطی،نسائ ابن حماد اور احمد بن حنبل نے ضعیف بتایا ہے۔( تہذیب التذیب جلد 3 صفحات 41،42) ۔ ابن تیمہ کہتے ہیں ضعیف بھی ہے ابو ابو ہرایرہ رضہ سے اس کا سماع بھی نہیں ہے۔( القول البدیع صفحات 156/ جلا ء الا فہام صفحہ 22) پانچویں روایت:۔ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ سندیوں لائے ہیں:۔ اس کا راوی عبداللہ بن ابراہیم ہے جس کے بارے میں امام ابو دائود کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے۔ امام الحاکم کہتے ہیں کہ یہ روایوں کے نام سے گھڑی ہوئ روایتیں بیان کرتا ہے۔ امام الدار قطنی کہتے ہیں کہ اس کی روایتیں منکر ہوتی ہیں۔( میزان الا عتدال جلد 2 صفحہ 20،21) چھٹی روایت:۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مجھ پر درور پڑھتا ہے میں خود سنتا ہوں اور جو قبر سے دور پڑھے وہ مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ سند یوں ہے:۔ اس روایت میں محمد بن مروان کا تفرد ہے اور محمد بن مروان متروک الحدیث ہے۔ عقیلی کا قول ہے کہ ابن نمیر کہتے ہیں کہ یہ کذاب ہے۔( حاشیتہ تھذیب جلد 26 صفحہ 359/ ضعفا ء الکبیر للعقیلی جلد 4 ص 136)۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ موضوع روایتیں بیان کرتا ہے۔ ( حاشیتہ تہذیب الکمال ج 26 ص 396) ۔ ساتویں روایت:۔ رسول ص نے فرمایا جب کوئ بندہ میری قبر قبر کے پاس مجھ پر سلام کہتا ہے تو ایک فرشتہ جس کو اللہ نے مامور فرمایا ہے اس سلام کو مجھ تک پہنچا دیتا ہے۔ سند یوں ہے:۔ سند کے لحظ سے اس میں محمد بن موسی البصری کو رو ایتیں اپنی طرف سے بنانے والا کہا گیا ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں اس نے ایک ہزار سے زیادہ روایتیں گھڑی ہوئ ہیں۔( میزان الا عتدال ج 3 ص 141)
Пікірлер: 8