نظم حضور رسالت ماب
جس دور میں اقبال نے شکوہ اور جواب شکوہ جیسی نظمیں تخلیق کیں وہ مسلماناں عالم کے لئے ایک عالمگیر انحطاط و انتشار کا زمانہ تھا اقبا ل مسلمانان عالم کی اس عمومی صورت حال پر ہمہ وقت بے تاب و بے قرار رہتے تھے۔ جواب شکوہ لکھنے سے کچھ عرصہ پیشتر اقبال نے طرابلس کے شہیدوں کے حوالے سے ایک نظم حضور رسالت مآب لکھی۔ یہ نظم بارگاہ نبوی میں شاعری کی ایک خیالی حضوری کو بیان کرتی ہے۔ فرشتے شاعر کو بزم رسالت میں حضور کے سایہ رحمت میں لے جاتے ہیں۔ بارگاہ نبوی سے شاعر سے خطاب کیا جاتا ہے۔
کہا حضور نے ای عندلیب باغ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمی نوا سے گداز
------------------------------
حضور رسالت مآب (ص) ميں - علامہ اقبال
گراں جو مجھ پہ يہ ہنگامہء زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا
قيودِ شام و سحر ميں بسر تو کي ليکن
نظامِ کہنہء عالم سے آشنا نہ ہوا
فرشتے بزمِ رسالت ميں لے گئے مجھ کو
حضورِ آيہء رحمت ميں لے گئے مجھ کو
کہا حضور نے، اے عندليبِ باغِ حجاز!
کلي کلي ہے تري گرميء نوا سے گداز
ہميشہ سرخوشِ جامِ ولا ہے دل تيرا
فتادگي ہے تري غيرتِ سجودِ نياز
اُڑا جو پستيء دنيا سے تو سوئے گردوں
سکھائي تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آيا
ہمارے واسطے کيا تحفہ لے کے تو آيا؟
''حضور! دہر ميں آسودگي نہيں ملتي
تلاش جس کي ہے وہ زندگي نہيں ملتي
ہزاروں لالہ و گل ہيں رياضِ ہستي ميں
وفا کي جس ميں ہو بو، وہ کلي نہيں ملتي
مگر ميں نذر کو اِک آبگينہ لايا ہوں
جو چيز اِس ميں ہے، جنت ميں بھي نہيں ملتي
جھلکتي ہے تري اُمت کي آبرو اِس ميں
طرابلس کے شہيدوں کا ہے لہو اِس ميں''
Singer: Khalil Ahmad
Негізгі бет Hazoor Risalat Maab(PBUH) MeiN-حضور رسالت مآب (ص) ميں-
Пікірлер: 1