واہ، واہ، علی لودھی صاحب۔ جواب نہیں۔ موجود ہ حالات کی اس سے بھتر کوی اور تصویر پیش نہیں ھو سکتی۔ قابل شنید اور باعث فخر آپکا جوشیلا انداز بیان ھے جس میں ادائیگی کے زیر و بم دلوں کو گرماتے ھیں۔ الله تعالیٰ آپ کے جوش و جذبہ کو فروزاں رکھے۔ دعا یہ ھے نہ ھوں گمراہ ھمسفر میرے۔ نہ توجہ نہ تغافل ہے علاج غم دل منزل عشق خدا جانے کہاں ھوتی ھے۔ ظلم و مظلومیت میں جب بھی چلی سر کو تلوار پر ہنسی آی۔ خمار بارہ بنکوی لودھی صاحب آپکی شاعرانہ حسساس طبیعت کو سلام۔ ھدی العنانی کہ یہ اشعار آپ کی نذر کرتا ھوں شائد آپ قابل التفات پائیں۔ "قیصر و فرعون کو بھیڑ میں ڈھونڈتی ھوں عمر رسیدہ لوگوں میں باخوس کو ہرقل کو ڈھونڈتی ھوں ایک مرصع تاج ایک انگوٹھی ایک سیڑھی مجھے جواب نفی میں ملتا ھے ان کے چہرے ڈھکے ھوے ھیں آنکھیں بچوں جیسی ھیں ھم تو غلام ھیں لیکن یہ کس کس کے نام تھے؟ آب بتائیں؟ انتخابات کی لائن میں کھڑے دھوپ، سردی اور بارشوں کے جھکڑ میں اپنی چار دیواری کے تقدس کوان درندوں کے ہاتھوں تار تار ھوتے دیکھا۔ جو مرد مومن ھے اسے پنجرے میں بند رکھا ھے۔ وقت کا تحفہ ھیں یادوں کے ادھورے خاکے دل پہ ثبت ھوے نقش تمنا بن کے چند یادیں ھیں کہ پلکوں پہ گہر بنتی ھیں اور ہوتی ھیں رواں درد کا دریا بن کے۔ (بابر) 3:37 3:37
Пікірлер: 2