نصیر ترابی
یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لے کے آ
یہاں چشمِ تر کا رواج ہے، دلِ خونچکاں ہو تولے کے آ
یہ فضا ہے عنبَر و عود کی، یہ محل ہے وردِ دُرود کا
یہ نمازِ عشق کا وقت ہےکوئی خوش اذاں ہو تو لے کے آ
یہ جو اک عزا کا شعار ہے یہ عَجب دعا کا حصار ہے
کسی نارسا کو تلاش کر، کوئی بے اماں ہو تو لے کے آ
یہ حضورو غیب کے سلسلے، یہ مَدارِ عشق کے مرحلے
غمِ رائیگاں کی بساط کیا، غمِ جاوداں ہو تو لے کے آ
یہ عَلم ہے حق کی سبیل کا یہ نشاں ہے اہلِ دلیل کا
کہیں اور ایسے قبیل کا کوئی سائباں ہو تو لے کے آ
سَرِ لوحِ آب لکھا ہُوا، کسی تشنہ مشک کا ماجرا
سرِ فردِ ریگ لکھی ہوئی، کوئی داستاں ہو تولے کے آ
ترے نقشہ ہائے خیال میں حدِ نینوا کی نظیر کا
کوئی اور خطّۂ آب و گِل تہہِ آسماں ہو تو لے کے آ
کبھی کُنجِ حُر کے قریب جا، کبھی تابہ صحنِ حبیب جا
کبھی سوئے بیتِ شبیب جا، زرِ ارمغاں ہو تو لے کے آ
مرے مدّ وجزر کی خیر ہو کہ سفر ہے دجلۂ دہر کا
کہیں مثلِ نامِ حسینؑ بھی، کوئی بادباں ہو تو لے کے آ
میں وہ حال ہوں کہ بَحال ہُوں مرے فرقِ فَر پہ کُلاہ رکھ
میں صراطِ حُر کا ہُوں راہرو، کوئی ہفت خواں ہو تو لے کے آ
نہ انیس ہُوں نہ دبیر ہُوں، میں نصیر صرف نصیر ہوں
مرے ظرفِ حرف کو جانچنے، کوئی نکتہ داں ہو تو لے کے آ
نصیر ترابی
Негізгі бет Naseer Turabi یہ ہے مجلسِ شہِ عاشقاں کوئی نقدِ جاں ہو تو لے کے آ
Пікірлер: 46