اب جو شراب پی کر نہ تری محفل میں آۓ۔۔ عمر تمام ہی، پھر وہ یوں ہی حسن کو ترسے۔۔ میکدے کی خوشبو نے چندن کردیا بدن ہے۔ ہو نہ؟ مے روبرو جسم سے، وہ پھر بوند کو ترسے۔ پیاسی نظریں میخانے کی دید میں غلطاں۔۔۔ اِس گلی کو نہ گزرے، وہ پیمانے کو ترسے۔۔۔۔ دن تھے وہ بھی عذاب، طلب تھی بوند رخے جاں۔ گھائل پیاسے تھے دو بدن، آہٹ کو ترسے۔۔۔ ہاۓ گزارا نہ جاۓ دن، بن میکدے ساقی۔ جو مے پیے یوں بن ترے، وہ محبوب کو ترسے۔۔ چاک ہوں، ملی رفاہ ہے یوں ترے کوچے میں آکر۔۔ میکدے سے کیا رشتہ، دل کیوں اس کو ترسے۔ چھوڑ گئے ہو جہاں میں کیوں مجھے یار اکیلا۔ سلسلہ تھا جو، کبھی کبھی عمر برسنے کو ترسے۔ شاعر۔عبدالصبور سومرو۔ بحر۔ہندی/متقارب مسدس محذوف۔۔۔۔
@raniriaz4592
Жыл бұрын
حیف ہے اس ملک پر کہ قیامت کے بعد بھی کوئ روز جزا نہیں۔ درندوں کی اس حکومت میں انصاف کا کوئ دروازہ نہیں
Пікірлер: 5