پروین شاکر
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہیے
پانی کو اب تو سَر سے گُزر جانا چاہیے
نشتر بدست شہر سے چارہ گری کی لَو
اے زخمِ بیکسی تجھے بھر جانا چاہیے
ہر بار ایڑیوں پہ گِرا ہے مِرا لہو
مقتل میں اب بطرزِ دگر جانا چاہیے
کیا چل سکیں گے جن کا فقط مسئلہ یہ ہے
جانے سے پہلے رختِ سفر جانا چاہیے
سارا جوار بھاٹا مرے دل میں ہے مگر
الزام یہ بھی چاند کے سر جانا چاہیے
جب بھی گئے عذابِ در و بام تھا وہی
آخر کو کتنی دیر سے گھر جانا چاہیے
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
پروین شاکر
Негізгі бет Parveen Shakir اے زخمِ بیکسی تجھے بھر جانا چاہیے
Пікірлер: 15