آپ کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں تو آپ اپنا تعارف کس طرح کرانا پسند کریں گے؟ یعنی ہم آپ کی شخصیت کا کون سا پہلو دیکھیں؟ کیونکہ بطور صوفی، عام طور پر برصغیر میں کسی مست اور الگ تھلگ شخصیت کے آدمی کو جو کہ اپنی ذات سے بھی بے نیاز ہو اور دنیا کے امور سے بھی اس کا کوئی تعلق نہ ہو، اسے صوفی کہا جاتا ہے۔ تو آپ مہر شریف جیسی ایک بڑی خانقاہ کے ماشاءاللہ چراغ ہیں اور اس کے علاوہ علمی حوالے سے اور ماشاءاللہ سے آپ کی تحریر کو اگر ہم دیکھیں اور آپ کی خدمت کا ایک بڑا سلسلہ ہے، تو آپ اپنی ذات کے لیے کون سا تعارف یا ٹائٹل پسند کرتے ہیں؟درویش کا کرتا ہوں اور یہی جو ہے میرے خیال میں بہت سارے لوگ ہیں جو مجھے شاید میرے نام سے تو بہت بعد میں جاننے لگے ہیں۔ تو پہلا تعارف تو یہ ہے کہ میں ایک درویش ہوں۔ یہ انسان اپنے آپ کو جو مرضی ٹائٹل دے دے، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لوگ ٹائٹل دیتے نہیں رہتے، وہ ہوتا ہے جو آپ کو خالقِ خدا سے ملتا ہے۔ وہ ہوتا ہے، اور وہ بھی خالقِ خدا اپنی طرف سے نہیں دیتا، وہ مالک ہی ہوتا ہے، وہ بھی لوگوں کے کہنے سے درویش نہیں بنتے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے تعارف میں کہا کہ میں غریب نواز ہوں۔ تو یہ تو مالک کی رضا ہے اور وہ ایک مسلسل عمل ہے ان کی زندگی کا کہ جو محتاج اور جو پریس طبقہ ان کے پاس آتا رہا، تو وہ ان کی توجہ کرتے رہے۔ باقی تو بس تعارف میں یہ ہے کہ آپ درویش ہیں۔آپ درویش کو کیسے ڈیفائن کرتے ہیں؟ کیونکہ درویش کی بھی کافی ساری misconceptions ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ درویش وہ ہے جو ایک در پر ایک موقع پر قیام کے ساتھ کھڑا ہے۔ درویش وہ ہے جو دنیا میں ہوتے ہوئے بھی دنیا سے بے نیاز ہوتا ہے، جیسے کہ آپ نے کہا کہ یہ موجودہ ایجوکیشن سسٹم conditioning machine ہے، تو آپ کے اس سے گزرنے کے بعد آپ کی غیر conditioning کہاں سے شروع ہوئی؟ کیا کوئی ایسا triggering point تھا یا یہ overtime ہوا؟ہاں، overtime بھی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ میں جب اپنے مرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو جیسے آپ کی ایک typical conditioning ہوتی ہے کہ آپ اگر تصوف کے راستے پر نکلے ہیں تو ابھی جو ہے وہ آپ کو کچھ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسے ذکر پر لگا دیا جائے گا یا عبادت کے حوالے سے، ریاست کے حوالے سے۔ ہماری جتنی بھی ہزار دفعہ یہ پڑھو، یہ کرو، تو وہ conditioning میرے ذہن کے اندر تھی۔ لیکن مرشد کریم نے مجھے شکار پر بھیجنا شروع کر دیا۔ میں یونیورسٹی سے پڑھ کر آیا تھا تو قلم والے لوگ تھے، انہوں نے ہاتھ میں بندوق پکڑوا کے شکار پر بھیجا۔اصل میں ہمیں کسی بھی چیز کو سمجھنے کے لیے ایک framework چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارے ذہن میں chemistry یا physics کے سیکھنے کا ایک framework موجود ہے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس وہی framework استعمال کرتے ہوئے ہم روحانیت کے knowledge کو بھی سمجھ پائیں گے۔ تو وہ ممکن نہیں ہوتا۔میں تقریباً ایک دہائی سے آپ کو follow کر رہا ہوں اور جب بھی آپ کو پایا، سفر میں پایا، اس سفر کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ شاید پہلے پہل میں زیادہ سفر ہوا، لیکن شوق سے تو شروع شروع میں ہوتا ہے۔ شوق سے جب آپ نئے نئے مسافر ہوتے ہیں، آپ کو چند destinations دیکھنی ہوتی ہیں، کچھ مقامات آپ نے طے کیے ہوتے ہیں، لیکن جب آپ انہیں کرتے کرتے، اگر آپ کی لسٹ زیادہ لمبی ہو، تو پھر آپ کو عادت ہو جاتی ہے، پھر یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک مسافر کے شعور میں چلے جاتے ہیں۔ تو وہ ایک lifestyle سا بن جاتا ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ میں نے 10 سال سے آپ کو جانتا ہوں اور میں نے کبھی بھی آپ کو سفر میں نہیں دیکھا، تو مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ آپ ایک ہی مکان میں کیسے رہ لیتے ہیں۔ تو وہ یعنی ایک مسافر کے شعور کو تو جو مقیم لوگ ہیں، ان کے لیے بھی حیرت ہوتی ہے۔ایک شعر تھا کہ قفس میں رہتے رہتے قفس سے ہو گئی الفت۔ میں خود ہی نوچ لیتا ہوں جب پرندے نکلتے ہیں تو وہ جو سنہری قفس کے اندر پرندے ہوتے ہیں، وہ کبھی ہوا میں اڑتے ہوئے کسی پرندے کو دیکھتے ہیں، تو یہی کہتے ہیں کہ یہ کتنا بے وقوف پرندہ ہے۔ دیکھو تو صحیح، اس کو رزق کے لیے کتنی دربدری برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اور ہمیں تو ادھر ہی قفس میں بیٹھے بیٹھے جو ہے، وہ ہماری ڈولی میں آ جاتا ہے۔ یہ نہیں جانتا کہ پانی پینے کے لیے کون سے چشمے پر جاتا ہے، اور کوئی شکاری پرندہ یا شکاری جانور اس پر حملہ کر سکتا ہے، تو کتنا risk لیتا ہے۔ اور مجھے تو قفس میں پانی بھی ہر وقت دستیاب ہے اور یہ دیکھو تو صحیح، تنکوں کا بھی کوئی گھر ہوتا ہے؟ یہ گھونسلہ بناتا ہے تنکوں سے۔ مجھے دیکھو، سنہری قفس میں مزے سے سو رہا ہوں، temperature controlled ہے۔ تو جو قفس والا ہے، اس کے پاس اتنے arguments ہیں جتنے ایک مسافر کے خلاف ایک مقیم لا سکتا ہے کہ یہ نہ تو کوئی career oriented ہے، نہ جو ہے وہ گھر بسانے کا ہے، تو وہ اس کی نظر میں تو پار ہو رہا ہے۔ لیکن پرندہ جو ہے، وہ تو دیکھتا ہے کہ ہمارا بیٹھنا اپنے میں مزے میں سو رہا ہے، یہ کبھی اس میں جاتا ہے، کہیں پنکھا ہے، کہیں بجلی نہیں ہے۔لیکن آپ نے دیکھنا ہے کہ آپ اپنے لیے وہ قفس پسند کرتے ہیں یا ہوا میں اڑنا پسند کرتے ہیں؟ اب ہوا میں اڑنا جو ہے، وہ قیمت تو پھر ہے، نہ کہ قفس میں زندگی اور اتنی ہوا میں زندگی۔ تو ہر چیز کی قیمت ہے، اور قیمت دینی پڑتی ہے۔
@SirajahmedSoomro-ry7lm
2 ай бұрын
Sain please write book because we achieve knowledge thanks
@HamzaKhurshidhks
2 ай бұрын
سکون
@xenium535
2 ай бұрын
A cage bird thinks flying is a crime.
@mianameer1084
2 ай бұрын
جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے ان کی نہیں مانی اور بھی مثالیں ہیں ۔تو جو ہمارے بزرگان دین اور اولیا عظام ہیں کیاان کی جن اولادوں نے گدی سنبھالی کیا وہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلے اور چل کہ وہ مقام حاصل کیا ؟کشف کرامات حاصل کی ؟؟؟؟؟؟حضرت ابراہیم بن ادھم بھی جب ہرن کا شکار کرتے کرتے اس کے پیچھے گئے اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی ھرن بولا کہ آپ اس کام کے لیے پیدا نہیں کئے گئے ۔حضرت ابراہیم کے والد آذر کی مثال بھی سامنے ہے ۔باقی جو بزرگ ہوں اولیا بھی سب سر آنکھوں پر لیکن شریعت و قرآن و سنت کے احکام کے عین مطابق ۔
Пікірлер: 31