An extract from the Friday Sermon delivered by the Head of the Ahmadiyya Muslim Community, Hazrat Mirza Masroor Ahmad (may Allah be his Helper) on 8 August 2014.
For more information: alislam.org
The Quranic verse (as cited above) states who else but God listens to the prayer of those in trouble, when they are مضطر muztir! Muztir (the distressed) signifies that person who sees himself engulfed in trials from all directions and does not see any physical or worldly way out for himself and only sees the way of God as his solution. Muztir does not simply signify one who is perturbed at not finding any way out, rather muztir finds a ray of light and runs towards it and does not signify a person who runs around haphazardly when surrounded by fire. This way he can fall in that fire. Muztir is one who sees a specific light in times of trials and tribulations and follows it. God states that He is the cooling shade for the muztir that saves him from the fire. We should turn to God with the firm conviction that He will take us out of troubles. As the Promised Messiah (as) said amazing peculiarities become evident in your support. One who becomes the kind of muztir who does not acknowledge or recognise any other refuge other than the refuge of God and does not acknowledge or recognise anyone other than God as a saviour from trials and tribulation is a true muztir and his prayers show wonders. In such situations God runs to the muztir and removes his troubles. His problems vanish, whether communal or personal. It is not that God only removes the troubles of such people, in fact when He confers His blessings on them they are limitless. Here, in the verse above God states that not only will He remove the troubles of true believers who are in difficulties but also promises to make them ‘successors in the earth’. God ruins high and mighty tyrants and gives prominence to those in their place who appear meek. Thus He removes personal and communal troubles!
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ دیکھو مصیبت زدہ لوگوں کی دعاؤں کو کون قبول کرتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی قبول کرتا ہے۔ اور جب وہ ایسی حالت میں ہوں جب مُضطر ہوں۔ مضطر اس کو کہتے ہیں جو اپنے چاروں طرف مشکلات اور ابتلاؤں کو دیکھتا ہے۔ اسے اپنی کامیابی کا کوئی مادی یا دنیاوی راستہ نظر نہیں آتا اور صرف اور صرف ایک راستہ نظر آتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ خداتعالیٰ کہتا ہے یہ مُضطر ہیں جو میری طرف آتے ہیں جن کے لئے دنیا کے تمام راستے بند اور مسدود ہو چکے ہوتے ہیں۔ مضطر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب کوئی راستہ نظر نہ آئے تو گھبراہٹ میں اضطراب شروع ہو جائے کہ ہم کدھر جائیں۔ بلکہ مضطر کا مطلب جیسا کہ میں نے کہا یہ ہے کہ جب تمام راستے بند ہو جائیں، تمام راستے مسدود ہو جائیں تو ایک طرف روشنی کی کرن نظر آئے اور وہ اس کی طرف دوڑے۔ اگر ہر طرف آگ نظر آ رہی ہو تو دیوانوں کی طرح بے چین ہو کر دوڑنے والے کو مضطر نہیں کہتے۔ کیونکہ اگر اس طرح وہ گھبراہٹ میں دوڑے گا تو خود آگ میں پڑ جائے گا بلکہ ہر طرف کی آگ دیکھنے کے بعد جب اسے امن کا ایک راستہ نظر آ رہا ہو، اسے ایک طرف پناہ نظر آ رہی ہو اور وہ اس معین راستے کی طرف چلا جائے تو وہ شخص ایسا ہے جو مضطر کہلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے شخص کو پھر آگ سے بچانے والا ہوں۔ مَیں اس کی پناہ گاہ ہوں۔ آگ کی تپش سے بچانے والی ٹھنڈی چھاؤں میں ہوں۔ میری طرف آؤ۔ مجھ سے پناہ طلب کرو۔ میں تمہیں ان ابتلاؤں سے نکالوں گا۔ اس یقین سے میری طرف آؤ کہ ہمارا خدا ہے جو ہمیں اس ابتلا سے نکالنے والا ہے تو میں تمہیں تمہارے اس یقین کی وجہ سے اس ابتلا سے نکالوں گا۔ تمہاری دعاؤں کی وجہ سے تمہیں اس ابتلا سے نکالوں گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عجیب و غریب خواص اور اثر تمہارے حق میں ظاہر ہوں گے۔
پس جو شخص ایسا مضطر بن جائے جو خدا تعالیٰ کے علاوہ کسی کو اپنا ملجا و مأویٰ نہ سمجھے کوئی پناہ کی جگہ نہ سمجھے، جو خدا کے سوا کسی اور کو ان ابتلاؤں سے نجات دلانے والا نہ سمجھے تو وہی حقیقی مضطر ہے اور اس کی دعائیں عجائب دکھانے والی بنتی ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ یقین ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا ہو گاکہ ہر قسم کے اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جہاں ہمیں روشنی کی کرن نظر آتی ہو اور جب ایسی حالت پیدا ہو جائے، جب اس طرح کی اضطرار کی کیفیت آ جاتی ہے تو پھر اس قسم کے مضطر کے پاس اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق دوڑتا ہوا آتا ہے اور اس کی مشکلات اور مصیبتیں دور کر دیتا ہے۔ اس کی تکالیف ہوا میں اڑ جاتی ہیں۔ چاہے وہ ذاتی تکالیف اور مشکلات ہوں یا جماعتی تکالیف اور مشکلات ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں ہو گا کہ یَکْشِفُ السُّوٓئَ۔ ہو یعنی اللہ تکلیفوں کو دور کر دے اور بس۔ یہ کافی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ جب انعامات دیتا ہے تو اس کے انعامات لا محدود ہو تے ہیں۔ کسی بھی حد تک وہ انعامات کو بڑھا سکتا ہے۔ پس یہاں بھی جب تکلیف میں مبتلا مومنوں کی تکلیفوں کو دور کرنے کا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ۔ کہ وہ تمہیں زمین کے وارث بنا دیتا ہے۔ وہ بڑے بڑے ظالموں، جابروں اور سرکشوں کو تباہ کر کے مظلوم اور کمزور نظر آنے والوں کو ان کی جگہ بٹھا دیتا ہے۔ پس جہاں انفرادی طور پر مضطر کی دعا سن کر اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے وہاں قومی رنگ میں بھی اس کی تکلیفوں اور ابتلاؤں کو دور کرتا ہے۔
#WordsOfKhalifa
Негізгі бет How to Get Out of Troubles | Ahmadiyya | Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V (aba)
Пікірлер: 6