احمد فراز
جب تجھے یاد کریں کارِ جہاں کھینچتا ہے
اور پھر عشق وہی بارِ گراں کھینچتا ہے
میرے دشمن کا کوئی تیر نہ پہنچا مجھ تک
دیکھنا اب کے مرا دوست کماں کھینچتا ہے
عہدِ فرصت میں کسی یارِ گزشتہ کا خیال
جب بھی آتا ہے تو جیسے رگ جاں کھینچتا ہے
دل کے ٹکڑوں کو کہاں جوڑ سکا ہے کوئی
پھر بھی آوازۂ آئینہ گراں کھینچتا ہے
انتہا عشق کی کوئی نہ ہوس کی کوئی
دیکھنا یہ ہے کہ حد کون کہاں کھینچتا ہے
کھنچتے جاتے ہیں رسَن بستہ غلاموں کی طرح
جس طرف قافلۂ عمرِ رواں کھینچتا ہے
ہم تو رہوارِ زبوں ہیں وہ مقدّر کا سوار
خود ہی مہمیز کرے خود ہی عناں کھینچتا ہے
رشتۂ تیغ و گُلو اب بھی سلامت ہے فرازؔ
اب بھی مقتل کی طرف دل سا جواں کھینچتا ہے
احمد فراز
Негізгі бет Ahmed Faraz دیکھنا اب کے مرا دوست کماں کھینچتا ہے
Пікірлер: 8