An extract from the Friday Sermon delivered by the Head of the Ahmadiyya Muslim Community, Hazrat Mirza Masroor Ahmad (may Allah be his Helper) on 12 May 2017.
For more information, visit alislam.org and mta.tv
Summary:
Regarding the opposition he had to endure, the Promised Messiah (as) stated:
‘They have issued edicts declaring me to be an infidel, invented false lawsuit and conjured an array of fabrications and falsehoods. They can use all their might and influence against me, but observe who will reign supreme in the end. If I begin to show concern for their profanities then the real duty assigned to me by God Almighty will remain incomplete. Therefore, just as I show no concern for their verbal abuse, I urge my Jamaat to endure their profanities. Never reply to the profanities with further foul language, because in doing such a thing you would lose all blessings. Through your morals demonstrate patience and forbearance.’
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’دیکھو مَیں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو۔ لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خود اسے شرم آ جاتی ہے‘‘۔ (تو ہمارے لئے تو یہ تعلیم ہے کہ گالیاں بھی ہیں تو نرمی سے جواب دو۔) فرمایا کہ’’خود اسے شرم آ جاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔‘‘ (کئی دفعہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جن مخالفین کی نیک فطرت تھی ان کو شرم آئی۔ فرمایا کہ) ’’مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے۔ یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب مَیں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو مَیں ہرگز پسندنہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ مَیں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے‘‘ اگر کوئی بہت زیادہ غصہ دلائے اور جس سے جوش پیدا ہو یا اشتعال پیدا ہو تو اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے ’’کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔ تو اس معاملے کو خدا کے سپرد کر دو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بے رنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے۔ ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں اور مَیں اعتبار نہیں کرتا کہ ابو جہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو۔ لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔ جب مَیں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔ آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔ ان کی گالیاں، ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔ اگر مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک مَیں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا۔ لیکن مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تم خود غور کرو کہ اُن کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے؟ ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔ اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو‘‘(جس زمانے میں آپ نے لکھا۔ فرمایا کہ اِس وقت) ’’دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پیدا ہو گئی‘‘۔ (اور آج ان گالیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں 209 ملکوں میں جماعت قائم ہے۔ فرمایا کہ ’’یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اَور سے؟‘‘۔ (یہ جو گالیاں دینے والے تھے انہی لوگوں میں سے یہ لوگ آئے ہیں اور جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔)’’انہوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٔ کفر کی کیا تاثیر ہوئی؟ جماعت بڑھی‘‘۔ (کفر کے فتووں کا نتیجہ کیا نکلا؟ کہ جماعت بڑھ گئی۔)’’اگریہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا۔‘‘ (اس جماعت کو بنانے کا اگر میرا کوئی منصوبہ ہوتا تو فتووں کا اثر ہوتا لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ فرمایا) ’’اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پیدا کر دیتا۔ لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اسے پامال کر سکے۔ جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے۔ مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آ رہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رک جاوے۔ مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رک نہیں سکتا۔ یہ ان گالیوں سے روکنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رکے گا‘‘۔ .....۔
#WordsOfKhalifa
Негізгі бет Verbal Abuse | Ahmadiyya | Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V (aba)
Пікірлер: 4