An extract from the Friday Sermon delivered by the Head of the Ahmadiyya Muslim Community, Hazrat Mirza Masroor Ahmad (may Allah be his Helper) on 30 April 2021.
For more information, visit alislam.org and mta.tv
Summary:
His Holiness(aba) said that the second thing which he wishes to draw attention towards is seeking forgiveness, specifically through the following prayer:
‘I seek forgiveness from Allah, my Lord, for all my sins, and turn to Him.’
His Holiness(aba) quoted the Promised Messiah(as) in explanation of this verse, who stated that this prayer means that may God cover the faults which have been committed, and may God save the person seeking repentance from the innate weakness which every person possesses. Just as God has created man, He has also created the means for man to be saved from faltering. Thus, God has commanded that we must seek forgiveness, and we can only be saved from faltering by continuously seeking forgiveness from Him.
دوسری بات جس کی طرف میں اس وقت خاص طور پر توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ ہے استغفار۔ یہ دعا کہ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔ یعنی میں تمام گناہوں سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت طلب کرتا ہوں جو میرا رب ہے اور اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکتا ہوں۔ یہ ایک ایسی دعا ہے جو انتہائی اہم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’استغفار کے اصلی اور حقیقی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفَرَ سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ لیکن بعداس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنی اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے۔ لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیداکرکے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے۔‘‘ قائم رکھنے والاہے۔ فرمایا ’’پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا۔ اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خداکی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیومیت کے ذریعہ سے بگڑنے سے بچاوے …… پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے۔ اسی کی طرف قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیاہے کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ(البقرۃ: 256)…… سو وہ خدا خالق بھی ہے اور قیوم بھی۔ اور جب انسان پیدا ہو گیاتو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی۔‘‘ اپنی حالتوں کو بگڑنے سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی صفت قیومیت یہاں اس صورت میں کام آتی ہے جب دائمی استغفار آدمی کرتا ہے۔ ’’غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے۔ پس استغفار صفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے کرتے رہنے کی طرف اشارہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں۔‘‘ (عصمتِ انبیاءؑ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 671-672)
#WordsOfKhalifa
Негізгі бет Istighfar | Seeking Forgiveness of Allah | Ahmadiyya | Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V
Пікірлер: 11